سیاحت کا فروغ وفاقی اداروں کو اہم اقدامات کرنے ہونگے :وزیر اعلیٰ

سیاحت کا فروغ وفاقی اداروں کو اہم اقدامات کرنے ہونگے :وزیر اعلیٰ

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر)وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے گزشتہ روزقومی ائیرلائن کے سی ای او ائیر مارشل ارشد ملک سے ملاقات کی وزیر اعلیٰ نے عوام کی خواہشات اور ضروریات کی بھر پور نمائندگی کرتے ہوئے پی آئی اے کو اپنا قومی کردار ادا کرنے کی استدعا کی۔ انھوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں سیاحت کے فروغ کیلئے فضائی سروس کو زیادہ سے زیادہ فعال کرنے ضرورت ہے۔اس سلسلے میں ترجیحی بنیادوں پر خصوصی پروازوں کا بندوبست کیا جائے پی آئی اے نے لوگوں کے اصرار پر کرایوں میں کمی کردی ہے ضرورت اس امرکی ہے کہ کرائے طویل بنیادوں پر مناسب اور عوام کی استطاعت کے مطابق مقرر کئے جائیں گلگت بلتستان میں مقامی سیاحوں کے ساتھ بین الاقوامی سیاحوں کے رجحان میں اضافہ ہورہاہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہیلی سروس کا بھی آغاز کرنے کیلئے بھی اقدامات اٹھائے جائیں گلگت اور سکردو کے مابین فضائی سروس بھی دوبارہ شروع کی جائے۔ گلگت بلتستان کیلئے فضائی سروس کو بہتر بناکر سیاحت کو بڑے پیمانے پر فروغ دیا جاسکتا ہے جس سے زرمبادلہ میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ سی ای او پی آئی اے ارشد ملک نے یقین دلایا کہ شمالی علاقہ جات تک رسائی پی آئی اے کی بحیثیت قومی ادارہ ذمہ داری ہے

نیلم ویلی ،کشمیر کی جنت کے رنگ

نیلم ویلی ،کشمیر کی جنت کے رنگ

مظفر آباد پہنچے تو شام ڈھل رہی تھی۔تقریبا آٹھ بجے رات نیلم ویلی کے ایک خوبصورت ،پرفضا مقام کیرن کی جانب روانہ ہوئے۔مظفر آباد سے کیرن تک عموما تین گھنٹے لگتے ہیں تاہم رات کے وقت ٹریفک نہ ہونے کی وجہ سے ہم ڈھائی گھنٹے میں کیرن پہنچ گئے۔دریائے نیلم/ کشن گنگا کے کنارے ریسٹ ہائوس کے سبزہ زار میںرات کے کھانے کا بندوبست تھا۔بہتے دریا کے پانی کی آواز پس منظر کی موسیقی کا کام کر رہی تھی۔ موسم میں پر لطف ہلکی خنکی تھی۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پہ لگی میزوں پہ لوگ کھانے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔وہاں بار بی کیو تیار کرنے کا بھی انتظام تھا اور ایک فیملی خود اپنا کھانا تیار کر رہی تھی۔دریا کے پار ہندوستانی مقبوضہ کشمیر ہے۔ارد گرد کے گیسٹ ہائوسز کی رنگین لائٹیں ماحول کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہی تھیں۔دریا کے پار مقبوضہ کشمیر میں چند ہی لائٹیں تھیں،زیادہ تر وہاں اندھیرے کا ہی راج تھا۔ آزاد کشمیر کا سب سے خوبصورت علاقہ ، معروف نیلم ویلی بنیادی طور پر تین وادیوںپر مشتمل ہے جن میں کیرن ویلی ، شاردہ ویلی اور گریس ( گریز) ویلی شامل ہیں۔میں پہلی بار تقریبا اڑتیس سال پہلے نیلم ویلی آیا تھا۔اس وقت کیرن میں دریا کے کنارے صرف ایک سرکاری ریسٹ ہائوس تھا ۔اب نیلم ویلی میں ہر سال بڑی تعداد میں سیاحوں کی آمد سے نیلم ویلی کے ہر معروف پرفضا مقامات پر گیسٹ ہائوس قائم ہیں جہاں مناسب قیمت پراچھے کمرے اور اچھے کھانوں کے ساتھ اچھا ماحول بھی میسر ہے۔کیرن سے ایک راستہ پہاڑ پہ قائم نیلم نامی گائوں جاتا ہے ،جہاں پہاڑ کے ٹاپ پہ ایک میدان نما علاقہ ہے۔یہاں بھی متعدد گیسٹ ہائوس قائم ہیں اور یہ جگہ کراچی کے سیاحوں میں مقبول ہے۔گرمیوں کے موسم میں نیلم گائوں ایک عجیب ہی منظر پیش کر تا ہے۔بالخصوص کراچی کے سیاح بڑی تعداد میں وہاں چھٹیاں گزارنے آتے ہیں۔نیلم گائوں کی بلندی سے دریا کے پار مقبوضہ کشمیر کے علاقے کا خوبصورت منظر ہے۔ رہائش کا انتظام ریسٹ ہائوس کے سامنے ہی قائم ایک خوبصورت ''ٹوئن ہلز ریزارٹ'' نامی گیسٹ ہائوس میں تھا۔رات کے وقت گیسٹ ہائوس میں لگی جامنی رنگ کی لائٹیںخوبصورت لگ رہی تھیں۔ میرے حصے میں ٹاپ فلور،تیسری منزل کا کمرہ آیا۔نئے تعمیر شدہ صاف ستھرے گیسٹ ہائوس کے کمرے بھی ہوا دار اور آرام دہ۔ہر فلور پہ کمروں کے سامنے ٹیرس نما برامندے سے سامنے دریا اور مقبوضہ کشمیر کا علاقہ نظر آتا ہے۔میں نے خاص طور پر گیسٹ ہائوس کے کچن میں بھی جا کر دیکھا،صاف ستھرہ اورگھر کی طرح کا ہی ماحول۔اسی ٹیرس پہ صبح کا ناشتہ کیا۔گیسٹ ہائوس کے سامنے کی طرف کے کمروں کے ساتھ چھوٹے ٹیرس بنے ہوئے ہیں جہاں بیٹھ کر ، خوشگوار اور قوت بخش ہوا میںدیر تک قدرت کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے باوجود دل نہیں بھرتا۔رات کے وقت کمرے سے ملحقہ اسی ٹیرس میں بیٹھا تھا کہ نیچے سڑک سے بکروال بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ گزرے۔بکر وال اپنی مخصوص آوازوں سے ریوڑ کی بھیڑ بکریوں کو چلتے رہنے کی ہدایت دے رہے تھے۔آدھی رات کے وقت بکر والوں کے بڑے قافلے پرکشش منظر پیش کر رہے تھے۔ اگلی صبح شاردہ کی طرف روانہ ہوئے۔کیرن سے شاردہ تقریبا 36کلومیٹر فاصلے پہ ہے اور یہ سفر تقریبادو گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔شاردہ میںبھی نیلم ویلی کے دوسرے مقامات کی طرح کافی تبدیلی آ گئی ہے۔بازار بڑے ہوگئے ہیں، سیاحوں کی رہائش کے لئے بہت سے گیسٹ ہائوس،ہوٹل قائم ہیں۔ دریائے نیلم پر نصب لوہے کے رسوں اور لکڑی کے تختوں والے پل کو گاڑی پہ ہی عبور کر کے جنگلات کے ریسٹ ہائوس پہنچے۔ریسٹ ہائوس کی عمارت دیکھ کر میں حیران ہوا۔یہاں پہلے لکڑی کا خوبصورت ریسٹ ہائوس ہوتا تھا۔اب اس کی جگہ پکی عمارت موجود ہے۔دریا کے ساتھ ذرا بلندی پہ قائم اس ریسٹ ہائوس کے سامنے ایک خوبصورت لان ہے جہاں سے سامنے کی طرف نیلم/کشن گنگا اپنی وسعت اور گہرائی میں ایک جھیل کی مانند محسوس ہوتا ہے۔پل کے دائیں جانب چند موٹر بوٹس اور سکوٹر بوٹس موجود ہیں جن پہ سیاحت کے لئے آنے والے دریا کی سیر کرتے ہیں۔انہی موٹر بوٹس کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا نالہ پہاڑ کی جانب سے آتے ہوئے نیلم/کشن گنگا میں شامل ہو جاتا ہے۔پہاڑ کی جانب کچھ ہی فاصلے پہ مدھو متی نامی اس نالے کے ساتھ ہی ایک قدیم بدھ،ہندو مت کی یونیورسٹی،مندرکاکھنڈر موجود ہے۔ نالہ مدھو متی کے عقب میں دو پہاڑی چوٹیاں ہیں جن میں سے ایک کا نام ناردہ اور دوسری کا نام شاردہ ہے۔ناردہ پہاڑ کے اوپر ایک چھوٹی جھیل بھی موجود ہے۔وہاں تک جانے کا کوئی باقاعدہ راستہ نہیں،بہت مشکل چڑہائی والا طویل اور خراب راستہ ہے ۔وہاں بھی آثار قدیمہ کے آثار موجود ہیں۔دریا کے دوسرے جانب ایک بڑا نالہ سرگن ، جس کا قدیمی نام سرسوتی ہے، دریا میں شامل ہوتا ہے۔ فارسٹ ریسٹ ہائوس میں دوپہر کے کھانے کے بعد اگلے مقام کیل کی جانب روانہ ہوئے۔شاردہ سے کیل تقریبا21 کلومیٹر فاصلے پہ ہے اور یہ سفر تقریبا ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ایک مقام سے دوسرے مقام تک سفر کرتے ہوئے بعض اوقات زیادہ وقت بھی لگ جاتا ہے کیونکہ راستے میں آنے والے خوبصورت مناظر ،پہاڑ سے بہہ کر آنے والے پانی کے جھرنے سیاحوں کو کچھ دیر کے لئے رکنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔کیل سے پہلے ہی مارگلہ نامی ایک خوبصورت نالہ پہاڑ کی بلندی سے بہتا ہوا دریا کی جانب آتا ہے۔مارگلہ نالے کا خوبصورت پانی سیاحوں کو رکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہاں ایک ہائیڈرل پاور پروجیکٹ بھی زیر تعمیر ہے۔ کیل پہنچتے ہی ہم اڑنگ کیل کی طرف روانہ ہوئے۔وہاں ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ تک ایک الیکٹرک چیئر لفٹ لگائی گئی ہے۔ لوگ اس پہ سوار ہو کر دوسرے پہاڑ تک پہنچتے ہیں اور وہاں سے پیدل چڑہائی چڑہتے ہوئے تقریبا آدھے گھنٹے میں پہاڑ کے ٹاپ پہ واقع میدانی علاقے اڑنگ کیل پہنچتے ہیں۔یہاں سے اوپر جانے کے لئے گھوڑے بھی حاصل کئے جا سکتے ہیںجو جنگل کی ایک پگڈنڈی سے گزرتے ہوئے اڑنگ کیل پہنچتے ہیں۔ اپنی استطاعت دیکھتے ہوئے گھوڑے پہ سوار ہو کر اڑنگ کیل پہنچے کا انتخاب کیا۔گھوڑا گھنے جنگل کے درمیان ایک پگڈنڈی سے گزرتے ہوئے چڑہائی چڑہنے لگا۔گھوڑے کا نوجوان مالک گھوڑے کی رسی پکڑے آگے چلتا رہا۔اڑنگ کیل اپنی خوبصورتی کی وجہ سے سیاحوں میں مقبول ہے ۔اڑنگ کیل میں تقریبا تین سو سے چار سو لکڑی سے بنے گھر ہیں اور وہاں رہنے والوں کا تعلق ایک ہی خاندان(مغل) سے ہے۔اڑنگ کیل میں بھی سیاحوں کے لئے گیسٹ ہائوس اور ہوٹل قائم ہیں۔اڑنگ کیل میں کافی تعداد میں سیاح نظر آئے۔ کسی وقت اڑنگ کیل میں وسیع میدان تھا جہاں اب مزید مکانات بن چکے ہیں۔تاہم اب بھی کافی حصے گھاس کے میدان پر مشتمل ہیں۔اڑنگ کیل سے واپسی پیدل ہی ہوئی کیونکہ اترائی کے سفر میں مشکل نہ تھی۔واپسی کے اس سفر میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ سیاح کافی تعداد میں چڑہائی چڑہتے ہوئے اڑنگ کیل جا رہے تھے۔ان میں بچے کے علاوہ خواتین بھی شامل تھیں۔چیئر لفٹ پہ سوا ر ہو کر واپس دوسری جانب پہنچے۔ اسی مقام پہ پاک فوج کے شہداء کی ایک یاد گار بھی قائم ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاک فوج کی طرف سے آرمی پبلک سکول / کالج زیر تعمیر ہے اور توقع ہے کہ جلد ہی یہ سکول / کالج کام شروع کر دے گا۔ نیلم ویلی کے بالائی علاقے میں قائم کیا جانے والا یہ سکول / کالج علاقے کی ترقی کے حوالے سے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ کیل میں رات قیام کے بعد ہماری اگلی منزل نیلم ویلی کا آخری مقام تائو بٹ تھا۔کیل سے سرداری نامی گائوں تک سڑک کی توسیع اور تعمیر کا کام جاری ہے۔جانوئی کے فارسٹ ریسٹ ہائوس میں چائے پینے کے بعد آگے روانہ ہوئے۔پھلوئی ،سوناری،سرداری کے بعد ہلمت پہنچے تو آرمی کی چک پوسٹ سے معلوم ہوا کہ ہندوستانی فوج کی طرف سے گولہ باری کی جارہی ہے،اس لئے آگے کا راستہ بند کیا گیا ہے۔ہم ساتھ ہی واقع ایک پہاڑی پہ واقع ہلمت کے فارسٹ ریسٹ ہائوس جا کر گولہ باری بند ہونے کا انتظار کرنے لگے۔وہاں بھی ہندوستانی فوج کے گولہ باری کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ہم ریسٹ ہائوس کے سامنے وسیع گھاس کے میدان میں بیٹھ گئے اور وہاں ہی چائے پی۔دریا کے پار سامنے کی جانب بلند دو پہاڑوں کے درمیان جنگل سے دھواں اٹھتے نظر آیا۔وہاں انڈین فوج کے دو گولے گرے تھے۔ تقریبا دو گھنٹے انتظار کے بعد گولہ باری بند ہونے کی اطلاع ملی تو ہم تائوبٹ کی جانب روانہ ہو گئے۔یہیں معلوم ہوا کہ ہندوستانی فوج کی فائرنگ کی وجہ سے بکر والوں کے قافلے قبل از وقت پنجاب کی میدانی علاقوں کی طرف رخ کر رہے ہیں۔ نیکرو اور کریم آباد کے دیہاتوں کے بعد آخر ہم شام کے وقت تائو بٹ پہنچ گئے۔ تائو بٹ کے شروع میں ہی دریا کے پار جانے کے لئے ایک پیدل پل نصب ہے اور دوسری جانب متعدد گیسٹ ہائوس موجو د ہیں۔اس پل پہ ہدایت تحریر ہے کہ ایک وقت میں ایک آدمی گزرے۔ہم نے اگلے آدمی سے زیادہ فاصلہ رکھتے ہوئے پل عبور کرنا شروع کیا تو پل کبھی اوپر نیچے اور کبھی دائیں ،بائیں ہلنے لگا۔اس ناچتے پل کو عبور کرنے کے حوالے سے چند شخصیات کے دلچسپ قصے بھی سنے میں آئے۔ پل کے پار اس علاقے کو'' تائو بٹ پار'' کہا جاتا ہے۔ گیسٹ ہائوسز کے آگے ،دریا کے ساتھ ایک بڑا میدان اور عقب میں گھنا جنگل۔کئی درخت ایسے کہ تاج پہنے محسوس ہوتے ہیں۔یہاں سے دریا کے آر پار آنے جانے کے لئے لوہے کے رسے کی ایک چھوٹی سی مینول لفٹ بھی نصب ہے جس میں ایک وقت میں دو افراد بیٹھ سکتے ہیں۔ اس جگہ کی خوبصورتی اپنی مثال آپ ہے۔

ایبٹ آباد کی تاریخی پیلس ہوٹل .. زبون حالی کا شکار..

ایبٹ آباد کی تاریخی پیلس ہوٹل .. زبون حالی کا شکار..

خیبر پختونخواہ کے علاقے ہزارہ کا خوبصورت شہر ایبٹ آباد جو برطانوی شہری میجر جیمز ایبٹ کے نام پر بنا تھا میجر جیمز ایبٹ 1849سے 1853 تک اس علاقے کے پہلے ڈپٹی کمشنر رہے. اسی کے نام سے بننے والے ایبٹ آباد کی اہمیت اپنی جگہ لیکن موسم کے حوالے سے صوبہ بھر کے بہترین علاقے میں واقع ہونے کی وجہ سے نہ صرف صوبہ خیبر پختونخواہ بلکہ ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے یہاں کا موسم بہ نسبت دوسرے شہروں کے بہتر ہیں یہی وجہ ہے کہ اس شہر میں آنیوالے سیاحوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جارہی ہیں پاک چین دوستی کا راستہ شاہراہ ریشم بھی اسی راستے پر آتا ہے اور یہ راستہ نہ صرف چین بلکہ اسی روڈ پر سوات اور کوہستان تک کے خوبصورت علاقے واقع ہیں جس کی وجہ سے اس روڈ کو استعمال کرنے والے افراد کی تعداد بھی مسلسل بڑھتی ہی جارہی ہیں-پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اس اکیڈمی نے خوبصورت جوان پاک آرمی کو دئیے جنہوں نے نہ صرف ملکی سرحدات کی حفاظت کیلئے اپنی جانیں قربان کردی بلکہ انہی جانبازوں کی کاوشوں سے آج اس مملکت خدادا میں امن قائم ہے.ایسٹ انڈیا کیساتھ آنیولے ایبٹ کے نام سے بننے والے اس شہر میں کلیسا بھی ہے ، مندر بھی ہے ، مسجد بھی ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر واقع ہیں جہاں پر ہونیوالی عبادات سے ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا سبق بھی ملتا رہا ہے-اسی شہر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا سویلین کیلئے بنایا گیا کمپنی باغ بھی موجود ہے جو اب تجاوزات کی وجہ سے ختم ہو کر رہ گیا ہے تاہم اس کی تاریخی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے- پیلس ہوٹل ایبٹ آباد کے کینٹ کے علاقے میں واقع پیلس ہوٹل جس کا مالک بابو ایشر داس تھا اور قیام پاکستان سے قبل یہاں پر ایک بار ہوا کرتا تھا جہاں پر الکوحل سے لیکر چائے تک ملتی تھی طبقہ اشرافیہ یہاں پر آکروقت گزارتے تھے اسی بابو ایشر داس کا مردان کا شوگر ملز بھی تھا اور قیام پاکستان کے بعد یہ پیلس ہوٹل جولگ بھگ 80 سال سے زائد کا ہو چکا ہے کو حکومتی سرپرستی حاصل رہی اسی ہوٹل میں چین کے چو این لائن ، برطانیہ کی ملکہ الزبتھ ، ایران کی فرح دیبا سمیت اعلی ریاستی حکام آتے رہے اور سٹیٹ گیسٹ کے طورپر وقت گزارتے رہے ہیں- پیلس ہوٹل چونکہ ایبٹ آباد کے ٹھنڈے موسم میں بنایا گیا تھا اس لئے اس وقت برطانیہ کی مشہور کمپنی shink کے تیار کردہ سامان کو امپورٹ کرکے یہاں پر لگایاگیا تھا ، جو اب بھی یہاں کے باتھ رومز میں کہیں کہیں پر نظر آتا ہے ، اکیس سے زائد ٹب یہاں پر لگائے گئے تھے جبکہ لگ بھگ تیس ایکڑ پر بنے اس بلڈنگ کو گرم کرنے کیلئے چاروں اطراف میں پانی کو گرم کرنے کیلئے ایک مخصوص سسٹم لگایا گیاجس سے نہ صرف گرم پانی پورے بلڈنگ میں مہیا ہوتا تھا بلکہ اس کے ذریعے یہ بلڈنگ کو گرم بھی رکھا جاتا تھا جبکہ اس پیلس ہوٹل کی چھتیں اتنی اوپر رکھی گئی تھی کہ ہوا کو اندر لانے کیلئے روشن دان تک بنائے گئے جو مختلف سمتوں سے آنیوالے ہوا سے کمروں کو بھی تازہ رکھتے اور گرمی میں کمرے بھی ٹھنڈے رہتے ، اسی طرح نکاسی اب کیلئے الگ ہی سسٹم رکھا گیا تھا ایسے مین ہول بنائے گئے تھے جس میں ایک شخص نیچے اتر کر پوری بلڈنگ کی نکاسی کے نظام کو چیک کرسکتا تھا . پیلس ہوٹل کے چاروں اطراف میں چنار ، دیار کے خوبصورت درخت اور خوبصورت چمن یہاں پر آنیوالے افراد کو بڑے دلفریب لگتے ہیں.برما سے امپورٹ کی گئی ساگوان کے مخصوص دروازے ، کرسیوں پر بیٹھ کر لوگ موسم کو بھی انجوائے کرتے تھے قیام پاکستان سے قبل کی اس عمارت کو 2005 میں آنیوالے تباہ کن زبزلے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا- کیونکہ اس کی بلڈنگ کو بارہ سے چودہ فٹ نیچے سے شروع کیا گیا . مخصوص ڈیزائن کے پلرز پر بنے والے اس بلڈنگ میں جہاں اندرونی طور پر گول سیڑھیاں موجود ہیں وہاں پر باہر سے جانے کیلئے گول چکر والی زینے بنائے گئے ہیں جس پر چل کر نہ تو تھکن کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی پتہ چلتا ہے کہ زینے پر کوئی چل رہا ہے.

ژوب، کالا باغ اور وادی سون سکیسر!

ژوب، کالا باغ اور وادی سون سکیسر!

گزشتہ دنوں چار روزہ مختصر سیاحت پر نکلنے کا اتفاق ہوا۔ دِن کم ہونے کے باوجود پیارے پاکستان کے تین صوبوں میں سے گزرنا تھا۔ بلوچستان جاتے ہوئے کسی بھی مسافر کا یہی تصور ہوتا ہے کہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں گی، راستے دشوار اور پُر خطر ہوں گے، منزلیں دُور اور مشکل ہوں گی۔ مگر ’’سی پیک‘‘ نے یہ تمام خدشات ختم کردیئے ہیں، سڑکیں بہترین، راستے بے خطر اور منزلیں آسان ہیں۔ ہمارا پہلا پڑاؤ تو ژوب تھا، جہاں جانے کے لئے بہترین سڑک نے ہمیں خوش آمدید کہا اور آخر تک ہمارا ساتھ نبھایا۔ ہم رواں سال کے آغاز میں ہی گوادر گئے تھے، نئی سڑکوں کی تعمیر اور سردیوں کے موسم نے سفر بہت ہی آسان بنا دیا تھا۔ اب چونکہ رُوٹ مختلف تھا، تاہم بہاول پور سے لورالائی تک کا سفر مشترک تھا، وہاں سے ژوب کی طرف رُخ کرنا تھا۔ یہ دیکھ کر صدمہ پہنچا کہ اِسی سال کے شروع میں جو سڑک بہترین تھی، اب اس پر اُبھار نمایاں ہو رہے تھے، گویا ایک موسمِ گرما ہی اُس کے لئے کافی ٹھہرا، آنے والے سالوں میں سنگلاخ پہاڑوں کے ویران راستوں پر غضب کی گرمی پڑے گی تو سڑک کی حالت کیا ہو جائے گی؟ افسوس کہ اپنے ہاں سڑک بناتے ہوئے ٹھیکیدار اور متعلقہ سرکاری محکمہ کا ایک ہی ٹارگٹ ہوتا ہے کہ بچت کتنی ہوسکتی ہے اور کس طریقے سے ہو سکتی ہے؟ سو فریقین کی تمام تر توانائیاں قومی خزانہ نوچنے پر مرکوز رہتی ہیں، اور بلاشبہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہی ٹھہرتے ہیں۔ بلوچستان کی سڑکیں بہتر ہو جانے کے بعد یہ امید بھی کی جاتی ہے کہ وہاں کے عوام کی حالت بھی بہتر ہو سکے گی، مگر جہاں ہر قدم ذاتی مفاد کے پیش نظر اٹھایا جاتا ہے، وہاں انسان کی ترقی کا کون سوچے گا ؟ یہی وجہ ہے کہ شہر کچرے اور گردو غبار سے اَٹے پڑے ہیں، لوگ میلے کچیلے اور غربت زدہ ہیں، تعلیم کی کمی کا احساس چار سُو دکھائی دیتا ہے۔ بڑی گاڑیاں اگرچہ بہت ہیں، مگر قوم کے ’سردار‘ بھی بہت ہیں، سرداروں کے علاوہ پورے صوبے میں ’نان کسٹم‘ گاڑیوں کا چلن عام ہے، شاہراہیں تو ہیں ہی، اطراف میں بھی ایسی گاڑیاں عام دیکھی جاسکتی ہیں۔ شاید یہاں کے باسیوں کی قسمت میں بھیڑ بکریاں چرانا، مزدوری کرنا اور ٹرانسپورٹ پر چھوٹی ملازمت کرنا ہی ہے۔ اپنی حکومتیں جس قدر بھی دعوے کریں، پسماندہ عوام کے لئے اُن کے ہاں کوئی عملی اقدام دکھائی نہیں دیتے، ہاں صرف وعدوں اور دعووں وغیرہ کی بات الگ ہے۔ اگر صوبہ کے وسیع علاقوں میں شہروں کے قریب چھوٹی صنعتیں لگائی جاتیں، یا مختلف مقامات پر بے شمار درخت کاشت کئے جاتے تو حالات مختلف ہو سکتے تھے۔ بلوچستان کے مشرقی ضلع ’شیرانی‘ سے ڈیرہ اسماعیل خان میں داخل ہونے سے قبل چند کلومیٹر دیوقامت پہاڑوں کا منظر انسان کو ششدر کر دیتا ہے، کہ دو بڑے پہاڑ آمنے سامنے ہیں، اور اُن کی کوکھ کو کاٹ کر بڑی سڑک بنائی گئی ہے، گاڑی بسا اوقات کٹے ہوئے پہاڑ کے نیچے سے گزر رہی ہوتی ہے، یہ منظر ناقابلِ فراموش ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پہاڑ بہت بڑی بڑی دیواروں کی طرح سیدھے کھڑے ہیں۔

ایبٹ آباد سے ڈونگا گلی کا سفر، بر ف باری اور چائے کے شوقین

ایبٹ آباد سے ڈونگا گلی کا سفر، بر ف باری اور چائے کے شوقین

برف تو ہر کوئی دیکھتا ہے اور شہروں میں رہنے والے لوگ زیادہ تر برف یا تو سڑک کنارے فروخت ہونیوالی برف دیکھتے ہیں یا پھر فریج میں بننے والی برف ، لیکن پہاڑوں پر گرنے والی برف باری کا شوق ہر عمر میں ہر ایک شخص کو ہوتا ہے کیا بچے ، کیا جوان اور کیا میری طرح نیم بوڑھے ،نیم بوڑھے اس لئے کہہ رہا ہوں کہ حالات اور سوچ نے وقت سے کچھ پہلے ہی بوڑھا کردیا ، خیر ہمارے ساتھی دوست غنی الرحمان نے ایبٹ آباد میں منعقد ہونیوالے دوسرے یوتھ آرچری چیمپئن شپ کی کوریج کیلئے کہہ دیا اور ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ ساتھ جائیں گے تو مزہ آئیگا - دل تو میرا بھی بہت تھا کہ چلو برف باری دیکھ لیں گے لیکن پروگرام نہیں بن رہا لیکن پھراللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ رکشے میں بیٹھ کر بھاگ کر آرچری چیمپئن شپ کیلئے جانیوالی ٹیم کے پیچھے دوڑے. یہ الگ بات کہ ہمارے ساتھی صحافی غنی الرحمان سب سے پہلے وہاں پہنچے تھے. جس دن جانا تھا اس دن گیارہ بجے کا وقت دیا تھا لیکن یہ تو ہماری پاکستانیوں کی عادت ہے کہ اگر لیٹ نہ ہو تو پھر کیا ہی بات ہے سو گاڑی روانہ ہوئی تو تقریبا ڈیڑھ بجے تھے ، اس میں کچھ انتظامی امور کا بھی مسئلہ تھا جبکہ کٹس بھی تیار نہیں تھے جس نے تیار کرنے تھے اس نے عین وقت پر اگلے دن ایبٹ آباد پہنچانے کی ذمہ داری لے لی . اور پھر یوںماسک پہنے ہمارا ایبٹ آباد تک کا سفر شروع ہوا ، خیبر پختونخواہ آرچری کلب کے بیشتر تیر انداز جس میں نوجوان زیادہ تھے اس وجہ سے یوتھ ڈائریکٹریٹ نے اس سلسلے میں آرچری کلب سے تعاون بھی کیا تھا جبکہ ان میں ایک60 سالہ آرچر بھی تھا سابق فٹ بالر ہونے کی وجہ سے اب موصوف ہر چیز کو لات مارنے کی عادی ہیں یہ الگ بات کہ اپنے گھر میں وہ لاتیں کھاتے ہیں جس کا بدلہ وہ فیلڈ میں لیتے ہیں-

درائے راوی

درائے راوی

ہمالیہ کی گود سے جنم لینے والے ’’راوی‘‘کا پانی ہماچل پردیش سے مادھوپور (انڈیا)ہیڈورکس تک آتا ہے مگر اس کی اصل پہچان پنجاب ہے جس میں اسے چناب سے راوی مرالہ لنک کینال سے سے پانی دیکر کر زندہ رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے پنجاب کا یہ عظیم دریا گردش وقت کا شکار ہوکر دریا کی بجائے نکاسی آب کا بڑے نالہ کی صورت اختیار کرچکا ہے ہمالیہ کی گود سے جنم لینے والے ’’راوی‘‘کا پانی ہماچل پردیش سے مادھوپور (انڈیا)ہیڈورکس تک آتا ہے مگر اس کی اصل پہچان پنجاب ہے جس میں اسے چناب سے راوی مرالہ لنک کینال سے سے پانی دیکر کر زندہ رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے پنجاب کا یہ عظیم دریا گردش وقت کا شکار ہوکر دریا کی بجائے نکاسی آب کا بڑے نالہ کی صورت اختیار کرچکا ہے --پاکستان کے پہلے فوجی حکمران ایوب خان کے دور میں1962ء کو پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت پنجاب کے تین دریاؤں ستلج‘بیاس اور راوی کا کنٹرول بھارت جبکہ چناب اور جہلم کا پاکستان کو دیا گیا-پرانے وقتوں میں آبادیاں دریا ؤ ں کے کنارے بنائی جاتی تھیں آج بھی دنیا کے قدم شہروں کی اکثریت مختلف دریاؤں کے کناروں پر آباد ہے‘خانہ بدوش صدیوں سے سفر میں ہیں آج بھی وہ جہاں جاتے ہیں اپنی بستیاں دریاؤں کے کناروں پر آباد کرتے ہیں اور کچھ عرصہ وہاں گزارنے کے بعد اگلی منزل کی جانب کوچ کرجاتے ہیں‘ راوی کے کنارے آباد شہر لاہور بھی تاریخی اہمیت رہا ہے یہ شہر اور دریا راوی کئی تہذیبوں کے عروج وزوال کا گواہ اور تاریخ کے گہرے رازوں کاامین ہے ‘ لاہور کے ایک کنارے سے گزرنے والا راوی اس علاقے کی تاریخ کا ایک گواہ بن کر کب سے یونہی بہہ رہا ہے ؟اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں ہے اس نے بادشاہوں کی بھی اپنی سیر کے لئے آتے دیکھا اور گداؤں کوا پنی قسمت پر آنسو بہاتے بھی دیکھا۔

پاکستان سیاحت کے عروج کی طرف گامزن

پاکستان سیاحت کے عروج کی طرف گامزن

حفیظ الرحمٰن اور دیگر لوگوں نے سیاحتی کاروبار میں جس خوف کا اظہار کیا ہے وہ جائز ہیں۔ حتیٰ کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں عوامی اجتماعات، دکانوں اور مساجد میں ایس او پیز کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہورہی ہے۔ ماسک پہننا اور چہرہ ڈھانپنا تو دُور کی بات ہے لوگ تجارتی مراکز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ برطانوی شاہی جوڑا پاکستان میں لاہور کے ایس او ایس ولیج کے دورے کے موقعے پر — تصویر بشکریہ آلامیایس او پیز کی ان خلاف ورزیوں اور کیسوں و اموات کی بڑھتی تعداد کے باوجود حکومت پہاڑوں کی سیاحت دوبارہ کھولنے کے لیے بے چین نظر آتی ہے۔ کورونا وائرس کی وبائی پھوٹ سے قبل بھی عمران خان پاکستان کے قدرتی نظاروں سے بھرپور شمالی علاقوں میں سیاحت کو فروغ دینے کے خواہاں تھے، بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ پرنس ولیم اور کیٹ مڈلٹن کے اکتوبر 2019ء کا دورہ پاکستان کو ایک پُرکشش محفوظ سیاحتی منزل کی حیثیت سے دوبارہ عالمی نظروں میں لے آیا تھا۔  

نیلم ویلی ،کشمیر کی جنت کے رنگ

نیلم ویلی ،کشمیر کی جنت کے رنگ

مظفر آباد پہنچے تو شام ڈھل رہی تھی۔تقریبا آٹھ بجے رات نیلم ویلی کے ایک خوبصورت ،پرفضا مقام کیرن کی جانب روانہ ہوئے۔مظفر آباد سے کیرن تک عموما تین گھنٹے لگتے ہیں تاہم رات کے وقت ٹریفک نہ ہونے کی وجہ سے ہم ڈھائی گھنٹے میں کیرن پہنچ گئے۔دریائے نیلم/ کشن گنگا کے کنارے ریسٹ ہائوس کے سبزہ زار میںرات کے کھانے کا بندوبست تھا۔بہتے دریا کے پانی کی آواز پس منظر کی موسیقی کا کام کر رہی تھی۔ موسم میں پر لطف ہلکی خنکی تھی۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پہ لگی میزوں پہ لوگ کھانے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔وہاں بار بی کیو تیار کرنے کا بھی انتظام تھا اور ایک فیملی خود اپنا کھانا تیار کر رہی تھی۔دریا کے پار ہندوستانی مقبوضہ کشمیر ہے۔ارد گرد کے گیسٹ ہائوسز کی رنگین لائٹیں ماحول کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہی تھیں۔دریا کے پار مقبوضہ کشمیر میں چند ہی لائٹیں تھیں،زیادہ تر وہاں اندھیرے کا ہی راج تھا۔ آزاد کشمیر کا سب سے خوبصورت علاقہ ، معروف نیلم ویلی بنیادی طور پر تین وادیوںپر مشتمل ہے جن میں کیرن ویلی ، شاردہ ویلی اور گریس  

آزاد کشمیر کی سیر و سیاحت

آزاد کشمیر کی سیر و سیاحت

5ہزار سال قدیم یونیورسٹی شاردہ کے کھنڈرات، قلعے ، کورؤں اور پانڈؤں ، منگولوں اور مغلوں کی گزرگاہیں، دلفریب باغات ، جنگلات اور پگڈنڈیاں، آبشاریں، قلعے، آثار قدیمہ کا خزانہ۔ لاکھوں سیاح اندرون ملک سے کشمیر پہنچ رہے ہیں کورونا وائرس کی وجہ سے دیگر شعبہ جات کی طرح خطے کی سیاحت صنعت کو بہت نقصان پہنچ چکا ہے۔ اب حکومت نے ملک کے دیگر سیاحتی مقامات کی طرح آزاد کشمیر کو بھی سیاحوں کے لئے کھول دیا ہے۔ اس اہم شعبہ کے ساتھ آزاد ریاست کے پانچ لاکھ سے زیادہ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔جو پانچ ماہ سے بے روزگار تھے۔کشمیر بلا شبہ دنیا میں جنت بے نظیر ہے۔وادی نیلم، جہلم، لیپا، تولی پیر، گنگا چوٹی، بنجوسہ جیسے بالائی علاقوں میں جون میں بھی جنوری جیسی فضا اور موسم کا احساس ہوتا ہے۔کشمیر کا ایک خوبصورت ترین حصہ بھارت کے قبضے میں ہے۔دوسرا حصہ، آزاد کشمیر اور تیسرا ،گلگت بلتستان ہے۔ چوتھا، چین کے زیر کنٹرول ہے۔یہ سب خوبصورتی کے شاہکار ہیں۔ آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور میں ریاست کو گلگت بلتستان سے قریب لانے کی طرف توجہ دی گئی۔ جس کا سب نے خیر مقدم کیا۔ گلگت بلتستان کے عوام سے دوستانہ تعلق قائم کرنے کی کوشش سب کی خواہش ہے۔آزاد کشمیر کے پیشہ ورانہ تعلیمی اداروں میں ان کے لئے کوٹہ مختص کیا گیا۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے آزاد کشمیر کوبراستہ گلگت بلتستان چین سے جوڑنے کے لئے ایک اہم شاہراہ نیلم ایکسپریس وے اور شونٹھر ٹنل تعمیر کرنے کا اعلان کیا ۔پتہ نہیں ان منصوبوں کے کے ساتھ کیا واردات ہوئی۔ فوری کام شروع نہہوا ۔وادی لیپا ٹنل کی تعمیر بھی ضروری تھی۔مگر یہ بھی تعمیر نہ ہوئی۔ اگر عمران خان حکومت نے سی پیک میں آزاد کشمیر کو بھی شامل کرنے کی ضرورت کو مدنظر رکھا، اہم منصوبوں کی تکمیل میں دلچسپی لی اور ترقی کو سیاست سے الگ رکھا تو سی پیک سمیت شاہراہ وادی نیلم ، ترقی اور سیاحت کے فروغ ہی نہیں بلکہ اس خطے کی ترقی کا باعث بنے گی۔ ڈوگرہ مہاراجوں کے دور میں قدیم راستے کشمیر کو وسط ایشیاء ، ایران، چین سے ملاتے تھے۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی حکومتیں اسلام آباد کے ساتھ مل کر خطے کی تعمیر وترقی پر خصوصی توجہ دیں تو یہاں کی تقدیر بدل جائے گی۔  

نوری آبشار

نوری آبشار

میرے گاؤں کا نام نلہ ہے یہ پیر سوہاوہ ٹاپ سے بجانب ہری پور کوئی پینتیس کلو میٹر دور ہے۔یہ پورا علاقہ سر سبز و شاداب ہے اسلام آباد کی مارگلہ ہلز کی چوٹی سے لے کر ندی ہرو پل تک سر سبز وادیوں پر مشتمل اس علاقے کی خوبصورتی کی مثال دیتے ہوئے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں علاقے کی خوبصورتی کو نئی سڑک نے چار چاند لگا دئے ہیں ،یہ سڑک ہمارا خواب تھی ہمارے بزرگوں کی کوششوں سے کچی نکلی اور اب اﷲ کا کرم ہے عمران خان کی حکومت آئی تو انقلاب آ گیا ۔ندی ہرو گلیات کی پہاڑیوں سے نکلتی شور شرابہ کرتی وادہ ء لورہ کے بغل سے ہوتی ہوئی اس پل کے نیچے سے گزرتی ہے جسے نلہ پل کہا جاتا ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے یہ جبری پل ہے حالنکہ جبری گاؤں اس پل سے چار کلو میٹر دور ہے۔ویسے بھی کچھ لوگوں کو عادت سی ہو گئی ہے نلہ پل اور نلہ جنگل بنگلہ کو جبری کے نام سے جوڑ رہے ہیں ان کی مرضی مگر جبری یہاں سے دور افتادہ گاؤں ہے ۔جس کی خوبصورتی چیڑھ کے درختوں سے عاری ہے۔اسی نلہ گاؤں سے ملحقہ گاؤں پینہ ہے جو ہلی کی ایک داخلی ہے جہاں جندر بھی ہیں اور یہ خوبصورت آبشار بھی ۔اگر آپ اس آبشار تک جانا چاہتے ہیں تو اس کے دو راستے ہیں ایک ٹیال سیداں سے ہو کر گزرتا ہے جو وی سی نلہ کا ایک گاؤں ہے دوسرا راستہ فارسٹ بنگلہ سے نلہ کی جانب جانے سے یہاں پہنچتا ہے۔نلہ روڈ پر آگے جائیں تو گاؤں کی مارکیٹ ہے جہاں چند دکانیں ہیں یہیں سے انتہائی دائیں جانب آپ پینہ کی طرف جاتے ہیں یہاں روڈ کی خستہ حالی زبان زد عام سے کسی سے شکوہ کرتی نطر آتی ہے ۔آپ موٹر بائیک پر اور جیپ سے جا سکتے ہیں کار پر سفر نہیں کیا جا سکتا۔  

ہے یہ کیسا سفر چلتے ہیں سب مگر

ہے یہ کیسا سفر چلتے ہیں سب مگر

صحافی معاشرے کی آنکھ ہوتا ہے میں ذاکر تنولی سے تو نہ مل سکا جس کا مجھے افسوس رہے گا لیکن وقاص سے ملاقات ہو گئی اس میں کمال یہ ہے کہ وہ وکیل بھی ہے اور صحافی بھی۔اس روز وہاں ثمینہ ریاض چودھری کی جانب سے کچھ معذور لوگوں کو ویل چیئرز دینے کا پروگرام تھا پاور نامی ایک تنظیم کا فنکشن تھا اس کی ضد تھی کہ میں مہمان خصوصی بنوں۔کچھ مصروفیات تھیں کچھ خود پیدا کر لیں ۔ادھر سے دل بہت اداس تھا آپ کو علم ہی ہے کچھ معزز ڈاکو فروری کی سترہ اور اٹھارہ تاریخ کو گھر پے آئے تھے سعودی پلٹ شکیل افتخار کا سر بھی پھاڑ گئے اور ہماری ساری جمع پونجی بھی لے اڑے اسی دن شکیل کی واپسی بھی تھی دل بھی بوجھل تھا کہ بیٹا ایک ہفتے کے لئے آیا مال مطاع بھی گنوا بیٹھا اور اوپر سے لٹ کے ساتھ کٹ بھی سمیٹی۔بیرون ملک مقیم پاکستانی معصوم لوگ ہوتے ہیں بڑے شوق سے پاکستان آتے ہیں ۔آنکھوں میں خواب لئے ماں باپ بھی ان کے منتظر ہوتے ہیں یہاں بہت سے دیئے ان لوگوں کی وجہ سے جلے ہوئے ہیں ۔میں بھی ایک مدت وہاں رہا ہوں مجھے بھی پاکستان آنے والے دن یاد ہیں کہ کس طرح انسان تاریخیں گنتا رہتا ہے کیلینڈروں کے اوپر لکیریں کھینچتا ہے ۔شکیل کے گھر خوشیوں کی آمد تھی کوئی بیس ہزار ریال نقد لایا جمعے والے دن پہنچا ڈاکو رات کو پہنچ گئے ۔ہمیں اپنے اپنے کمرے میں رسیوں سے باندھا اور دو گھنٹے گھر کی تلاشی لی دس لاکھ نقد اور کوئی بیس لاکھ کے زیورات لوٹ لئے۔یقین کیجئے اپنی آنکھوں کے سامنے چند غیر لوگوں کی اس غنڈہ گردی کو دیکھنا بہت تکلیف دہ مرحلہ تھا ۔خیر یہ قیامت گزری پارٹی کے دوستوں کو پتہ چلا تو میری مدد کو آئے میں بابر اعوان علی محمد خان شہر یار آفریدی غلام سرور خان شیخ راشد شفیق کا شکر گزار ہوں باقی دوستوں نے فون کئے کچھ کو توفیق نہیں ہوئی اﷲ انہیں خوش رکھے۔ اگلے روز شکیل کے گھر انابیہ آئیں اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ شکیل سلامت تھا ہم اس ننھی پری کو دیکھ کر دکھ بھول گئے شکیل کی فلائیٹ صبح نو بجے تھے پہلے بتایا گیا کہ دس بجے ہے خیر دڑک لگائی اسے ایئر پورٹ چھوڑا ساتھ میں پیارے بھانجے ماجد کو ساتھ لیا اور اگلا سفر ہری پور کا تھا خیر سے نیا ایئر پورٹ اب ہم سے بھی اتنا ہی دور ہے جتنا ہری پور سے ۔نو بجے ہم غلام فرید کے گھر پہنچے جو میری چچا زاد کا خاوند ہے سعودی عرب کے قوانین کی بھینٹ چڑھ کر کوئی سال بھر پہلے گھر آ گیا ہے ریاض میں دکان کرتا تھا اس کی دکان سے سے اشیاء پکڑی گئیں جو اسے بیچنے کی اجازت نہیں تھی یعنی بادام اخروٹ تو بیچ سکتا تھا پرفیوم نہیں بیچ سکتا تھا اسی جرم میں اسے جہاز پر چڑھا دیا اس کی زندگی کی کل پونجی اب اس کے ایک دوست کے رحم و کرم پر ہے جو اس دکان کو چلا رہا ہے ۔جب اسے دیکھتا ہوں اور یہاں کے دکانداروں کو پریشان ہو جاتا ہوں کہاں وہاں کا نظام اور کہاں یہاں کا ۔اب وہ مزید چار سال وہاں نہیں جا سکتا ۔ناشتہ اپنی چچا زاد کے گھر کیا میری بیٹیوں جیسی عم زاد میری بیگم کی چھوٹی بہن بھی ہے اسے میں نے ڈولی میں بٹھا کر موضع بوکن بھیجا تھا ۔اﷲ اسے تتی ہوا نہ لگائے مجھے عزیز از ربیعہ ہے۔بہترین دیسی کڑھی کا ناشتہ ہلکے کاغذی پراٹھے اور اوپر سے خالص دودھ کی چائے اور سب سے زیادہ حیران کن بات کہ ہم سوئی گیس کے چولہے کے سامنے بیٹھے تھے۔جو ایئر پورٹ سوسائٹی میں نا پید ہے پتہ نہیں ہم یہاں کیوں پڑے ہیں نہ گیس نہ پانی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی اوپر سے انتہائی نالائق انتظامیہ ۔ایک بد مزاج ریٹارڈ کرنل جسے نہ اپنی عزت کا خیال ہے اور نہ کسی اور کا بے رخے اس بد تمیز شخص کو اﷲ سنبھالے۔یہ الیکشن سے پہلے تقریروں میں کہا کرتا تھا کہ میں حضرت ابراہیم کی وہ چڑیا ہوں جو بساط بھر کوشش کروں گا مجھے علم تھا کہ یہ پسوڑی اس سوسائٹی کو تباہ کر دے گی اسی لئے اس کا نام کرنل بندش رکھا تھا ۔ یہ کہا کرتا تھا کرپشن کی آگ میں چونچ سے پانی بھر کے لاؤں اور اسے ختم کروں گا سوسائٹی کا کا حال اس کے بد ہئیت چہرے سے بھی برا ہے۔خیر چھوڑیں کس سیاہ رو کی بات چھڑ گئی ہے۔  

حج ڈائری: میری ذات سب مٹی

حج ڈائری: میری ذات سب مٹی

ٓآگہی (1) نہ جانے کتنی صدیوں سے عشاٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍقِ حقیقی کعبہ کے طواف میں مصروف ہیں۔ سوز ومستی کی وارفتگی دیکھنی ہو تو کعبے کا منظر دیکھو اور کہو اللہ اکبر۔پھر خود بھی اسی دیوانگی کا حصہ بن جاؤ۔لبیک اللهم لبیک۔ 2016 کا بابرکت سال تھا جب اپنے لخت جگر کے ساتھ حج کرنے کی سعادت حاصل کی ۔ تبھی سوچ لیا تھا کہ اپنے احساسات اور تاثرات کو قلم کا جامہ ضرور پہناؤں گی ۔یہ ایک کوشش ہے اپنی یادوں کو امر کرنے کی۔ اردو ادب میں کئی لا جواب مضامینِ حج اور سفر نامےلکھے جا چکے ہیں ۔ ان ادبی شاہکاروں کو پڑھ کر بے بہا روحانی اور علمی اکتساب حاصل کیا جا سکتا ہے۔ میری یہ ادنٰی سی کاوش بس میرے دل کی صدا ہے اور کچھ نہیں۔ اسی لیے میری آپ سے درخواست ہے کہ یہ تحریر پڑھتے ہوئے کو ئی زیادہ توقعات مت لگایئے گا ۔ سفرکیوں کیا جاتاہے؟ میں اکژ اپنے آپ سے پوچھتی تھی۔آخر ہم اتنا جھنجھٹ کرتے ہی کیوں ہیں؟ ٹکٹ اور سفری سامان کا بندوبست کرنا اور اس کے علاوہ ہر قسم کی صعبو تیں برداشت کرنا ۔ پھر بھی ہم سفر کرتے ہیں ۔ ۔اپنے پیاروں سے ملنے کے لیے ۔تلاشِ روزگار کے لیے ۔دنیا کھوجنے کے لیے ۔ غم بھلانے کے لیے  

پیرا گلائیڈنگ کا عالمی مقابلہ، آزاد کشمیر میں سیاحت کا فروغ !

پیرا گلائیڈنگ کا عالمی مقابلہ، آزاد کشمیر میں سیاحت کا فروغ !

رواں سال کو اگر آزاد کشمیر میں ٹورازم کے فروغ کا سال کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔آزاد کشمیر حکومت نے اس سال سیاحت کے فروغ کے لئے چند خصوصی اقدامات کئے ہیں۔وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے آزاد کشمیر میں سیاحت کے فروغ کو خصوصی توجہ دیتے ہوئے سرکاری سطح پر 'ٹورازم پالیسی' کا اعلان کیا ہے۔ٹور ازم پالیسی کے تحت آزاد کشمیر کے سیاحتی دلچسپی کے مقامات کی نشاندہی،سیاحتی سہولیات کے لئے نجی شعبے کو ترغیبات کے علاوہ سیاحوں کی رہنمائی اور ان کو درپیش مسائل کے فوری حل کے لئے ٹورازم فورس کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے جنہیں خصوصی وردی اور ٹرانسپورٹ بھی مہیا کی گئی ہے۔اس حوالے سے اچھے معیار کی سڑکوں کی تعمیر پر وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر میں تاریخی عمارات وغیرہ کی نشاندہی اور انہیں محفوظ بنانے کے اقدامات بھی شروع کئے گئے ہیں اور غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی بحالی کا کام بھی شروع کیا گیا ہے جس میں وادی نیلم کے مقام شاردہ میں قائم قدیم مندر کی بحالی کا کام بھی شامل ہے۔  

بلتستان کا وسیع علاقہ "دیوسائی" دنیا کی خوبصورت جگہوں میں سے ایک ھے

بلتستان کا وسیع علاقہ "دیوسائی" دنیا کی خوبصورت جگہوں میں سے ایک ھے

دنیا کی بلند ترین سطح مرتفع ۔۔۔ نایاب بھورے ریچھوں کا مسکن پاکستان کو سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے۔ یہاں کے شمالی علاقہ جات اپنی خوبصور تی اور رعنائی میں لاثانی ہیں۔ یہاں دنیا کی بلند ترین چوٹیوں اور وسیع ترین گلیشئیر کے علاوہ دنیا کا بلند ترین اور وسیع ترین سطح مرتفع دیوسائی بھی موجود ہے۔ دیوسائی کی خاص بات یہاں پائے جانے والے نایاب بھورے ریچھ ہیں اس نوع کے ریچھ دنیا میں میں کہیں اور نہیں پائے جاتے۔ یہاں بھی یہ معدومیت کا شکار ہیں۔ دیوسائی سطح سمندر سے اوسطاً 13500َفٹ بلند ہے اس بلند ترین چوٹی شتونگ ہے جو 16000فٹ بلند ہے۔ دیوسائی کا کل رقبہ 3000 مربع کلو میٹر ہے۔ سال کے آٹھ تا نو مہینے دیوسائی مکمل طور پر برف میں ڈھکا رہتا ہے۔ یہاں تیس فٹ تک برف پڑتی ہے اس دوران پاک فوج کے ہیلی کاپٹر تک اس کے اوپر سے نہیں گذرتے۔یہی برف جب پگھلتی ہے توتو دریائے سندھ کے کل پانی کا 5فی صد حصہ ہوتی ہے۔ ان پانیوں کو محفوظ کرنے کے لئے صد پارہ جھیل پر ایک بند زیر تعمیر ہے۔  

تھائی لینڈ کے کرنسی اور لوگوں کی صفائی کی عادت

تھائی لینڈ کے کرنسی اور لوگوں کی صفائی کی عادت

تھائی لینڈ کے مقامی لوگ اپنے ملک کی تیار کردہ اشیاء ہی استعمال کرتے ہیں جس کا اندازہ یہاں پر آکر ہواچھوٹی سے چھوٹی چیز بھی مقامی طور پر تیار ہوتی ہیں اور چھوٹے بڑے جنرل سٹور پر دستیاب ہیں جسے عام لوگ خوشی خوشی لیتے ہیں. اب اس کے مقابلے میں اگر بہتر چیز بھی غیر ملکی کمپنی کا بنا ہوا ہو تو اسے مقامی لوگ نہیں خریدتے. تھائی لینڈ کے بازار میں پینے کے پانی کے تیار بوتلوں سے لیکر چپل اورخوراک کی مختلف اشیاء لوگ زیادہ خریدتے ہیں. مقامی لوگوں سے جب میں نے سوال کیا کہ غیر ملکی چیز تو اس سے بہتر ہوتی ہیں تو ہنس کر اپنی ملک کی تیار کردہ چیزوں کو لیکر کہتے ہیں its good. الیکٹرانکس کی اشیاء دیکھ لیں. تھائی لینڈ کی لوگوں کی اچھی باتیں یہی ہیں اپنے ملک کی اشیاء کو خریدتے ہیں جس سے مقامی صنعتوں کو فروغ ملتا ہے.تھائی لینڈ کے مقامی لوگ اپنے ملک کی تیار کردہ اشیاء ہی استعمال کرتے ہیں جس کا اندازہ یہاں پر آکر ہواچھوٹی سے چھوٹی چیز بھی مقامی طور پر تیار ہوتی ہیں اور چھوٹے بڑے جنرل سٹور پر دستیاب ہیں جسے عام لوگ خوشی خوشی لیتے ہیں. اب اس کے مقابلے میں اگر بہتر چیز بھی غیر ملکی کمپنی کا بنا ہوا ہو تو اسے مقامی لوگ نہیں خریدتے. تھائی لینڈ کے بازار میں پینے کے پانی کے تیار بوتلوں سے لیکر چپل اورخوراک کی مختلف اشیاء لوگ زیادہ خریدتے ہیں. مقامی لوگوں سے جب میں نے سوال کیا کہ غیر ملکی چیز تو اس سے بہتر ہوتی ہیں تو ہنس کر اپنی ملک کی تیار کردہ چیزوں کو لیکر کہتے ہیں its good. الیکٹرانکس کی اشیاء دیکھ لیں. تھائی لینڈ کی لوگوں کی اچھی باتیں یہی ہیں اپنے ملک کی اشیاء کو خریدتے ہیں جس سے مقامی صنعتوں کو فروغ ملتا ہے.  

تھائی لینڈ کے لوگوں کی عجیب عادات اور بجلی کی لوڈشیڈنگ

تھائی لینڈ کے لوگوں کی عجیب عادات اور بجلی کی لوڈشیڈنگ

فرانسیسی خاتون سیاح جومیرے ساتھ رہی تھی اس سے میں نے پوچھا کہ تم کب سے آرہی ہو کبھی ایسا ہوا ہے کہ یہاں بجلی گئی ہو تو اس نے بتایا کہ دو سال سے زائد کا عرصہ ہوا ہے میں مسلسل آتی رہی ہو‘ مختلف اوقات میں لیکن بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سوچنا بھی نہیں‘چنگ مائی جاتے ہوئے بجلی کا فیڈر دیکھا لیکن چوکیدار کھڑا نہیں دیکھا ایسا لگتا تھا کہ ویرانی ہوئی ہمارے ہاں تو ماشاء اللہ‘ بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے لوگ نکلتے ہیں اور اپنے ہی پیسوں کے بنے ہوئے بجلی کے فیڈر کو آگ لگاتے ہیں.بنکاک سے چنگ مائی تک کے سفر میں میں نے دو ہفتے گزار دئیے مختلف جگہوں پر سیر بھی کی تربیتی سیشن میں بھی حصہ لیا دو باتیں جو کم از کم میرے لئے حیران کن اور عجیب تھی ان میں ایک عادت یہی تھی کہ میں نے کسی گھر کا دروازہ بند نہیں دیکھا دروازے کھلے ہوتے تھے کچھ عجیب سی صورتحال تھی جس جگہ پر ہماری رہائش تھی وہاں پر اسی ادارے کے لوگوں کی بڑی تعداد تھی ہر ایک شخص کو کمرہ دیا گیا تھا لیکن کوئی کسی کے کمرے میں نہیں جاتا تھا واش رومز کمروں سے باہر تھے جہاں پر ہر کوئی اپنا سامان رکھتا تھاجس میں شیونگ کے سامان سے لیکر ٹوتھ پیسٹ‘ شیمپو اور دیگر سامان پڑا ہوتا تھا لیکن مجال ہے کہ کوئی دوسرے شخص کے سامان کو ہاتھ لگاتا یا استعمال کرتا.  

ایبٹ آباد کی تاریخی پیلس ہوٹل .. زبون حالی کا شکار..

ایبٹ آباد کی تاریخی پیلس ہوٹل .. زبون حالی کا شکار..

پیلس ہوٹل ایبٹ آباد کے کینٹ کے علاقے میں واقع پیلس ہوٹل جس کا مالک بابو ایشر داس تھا اور قیام پاکستان سے قبل یہاں پر ایک بار ہوا کرتا تھا جہاں پر الکوحل سے لیکر چائے تک ملتی تھی طبقہ اشرافیہ یہاں پر آکروقت گزارتے تھے اسی بابو ایشر داس کا مردان کا شوگر ملز بھی تھا اور قیام پاکستان کے بعد یہ پیلس ہوٹل جولگ بھگ 80 سال سے زائد کا ہو چکا ہے کو حکومتی سرپرستی حاصل رہی اسی ہوٹل میں چین کے چو این لائن ، برطانیہ کی ملکہ الزبتھ ، ایران کی فرح دیبا سمیت اعلی ریاستی حکام آتے رہے اور سٹیٹ گیسٹ کے طورپر وقت گزارتے رہے ہیں-پیلس ہوٹل چونکہ ایبٹ آباد کے ٹھنڈے موسم میں بنایا گیا تھا اس لئے اس وقت برطانیہ کی مشہور کمپنی shink کے تیار کردہ سامان کو امپورٹ کرکے یہاں پر لگایاگیا تھا ، جو اب بھی یہاں کے باتھ رومز میں کہیں کہیں پر نظر آتا ہے ، اکیس سے زائد ٹب یہاں پر لگائے گئے تھے جبکہ لگ بھگ تیس ایکڑ پر بنے اس بلڈنگ کو گرم کرنے کیلئے چاروں اطراف میں پانی کو گرم کرنے کیلئے ایک مخصوص سسٹم لگایا گیاجس سے نہ صرف گرم پانی پورے بلڈنگ میں مہیا ہوتا تھا بلکہ اس کے ذریعے یہ بلڈنگ کو گرم بھی رکھا جاتا تھا جبکہ اس پیلس ہوٹل کی چھتیں اتنی اوپر رکھی گئی تھی کہ ہوا کو اندر لانے کیلئے روشن دان تک بنائے گئے جو مختلف سمتوں سے آنیوالے ہوا سے کمروں کو بھی تازہ رکھتے اور گرمی میں کمرے بھی ٹھنڈے رہتے ، اسی طرح نکاسی اب کیلئے الگ ہی سسٹم رکھا گیا تھا ایسے مین ہول بنائے گئے تھے جس میں ایک شخص نیچے اتر کر پوری بلڈنگ کی نکاسی کے نظام کو چیک کرسکتا تھا . پیلس ہوٹل کے چاروں اطراف میں چنار ، دیار کے خوبصورت درخت اور خوبصورت چمن یہاں پر آنیوالے افراد کو بڑے دلفریب لگتے ہیں.برما سے امپورٹ کی گئی ساگوان کے مخصوص دروازے ، کرسیوں پر بیٹھ کر لوگ موسم کو بھی انجوائے کرتے تھے قیام پاکستان سے قبل کی اس عمارت کو 2005 میں آنیوالے تباہ کن زبزلے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا- کیونکہ اس کی بلڈنگ کو بارہ سے چودہ فٹ نیچے سے شروع کیا گیا . مخصوص ڈیزائن کے پلرز پر بنے والے اس بلڈنگ میں جہاں اندرونی طور پر گول سیڑھیاں موجود ہیں وہاں پر باہر سے جانے کیلئے گول چکر والی زینے بنائے گئے ہیں جس پر چل کر نہ تو تھکن کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی پتہ چلتا ہے کہ زینے پر کوئی چل رہا ہے.